ڈاکٹر عثمان غنی اور میں ڈاکٹر عارف محمود چغتائی |
ڈاکٹر عثمان غنی صاحب:
سب سے مشکل کام شخصیت نگاری ہے_
خصوصاً ایسی شخصیت کہ جس سے آپ کی پہلی ملاقات وہ بھی چند لمحات کی، بہرحال میں کوشش کروں گا کہ انکی شخصیت کا جو خاکہ میرے ذہن میں نقش ہوا وہ بلا تردد پیش کر سکوں_
یاد رہے کہ میرا ان سے پیار اور احترام کا رشتہ ہے_
جہاں میں نے ان پر تنقید کی ہے وہاں بہت زیادہ کاموں پر تعریف بھی کی ہے اس سب کے باوجود ان کی جگہ میرے دل میں ہے اور ان کی شخصیت تنقید و تعریف کی محتاج نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے نظریے پر قائم ہیں اور کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں (اللہ انہیں مزید کامیابیاں عطا فرمائے آمین) ۔
اب وہ جس مقام پر ہیں یہ ان کی زندگی بھر کی ریاضت محنت، لگن اور نظریہ ہومیوپیتھی کی ترویج ترقی ہے_
ان سے ملاقات کی روداد اور شخصیت کو کیسے پایا؟
میں دوستوں کے ہمراہ رحیم یار خان سے خانیوال وہاڑی ساہوکا، بورے والا اور وہاڑی کے وزٹ پر تھا اور ڈاکٹر عثمان غنی صاحب کا کلینک ہومیوپیتھک پوائینٹ رستے میں چھوٹے سے قصبے چھب کلاں میں واقع ہے کہتے ہیں نہ کہ آپ کی محنت خوشبو کی مانند ہوتی ہے جسے پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا اس طرح آپ کی محنت کی خوشبو کو بھی کوئی نہیں روک سکتا آج اس محنت کی خوشبو کی بدولت ملک بھر سے دکھی انسانیت مسیحائی کے لیے آپ کے پاس آتی ہے ۔
اللہ نے ان کے ہاتھ میں ایسی مسیحائی رکھی ہے کہ بہرے، گونگے ،نابینے ،معذور اور لا علاج مریض بھی شفایاب ہوئے ہیں اور یہ ہومیوپیتھ کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے ایسے مریض ہر ہومیوپیتھ کے پاس آتے ہیں اور شفایاب بھی ہوتے رہتے ہیں مگر نئی، خاص، نمایاں بات اور انفرادیت یہ ہے کہ یہ چہرہ دیکھ کر دوائی تجویز کرتے ہیں یہ میرے اور میرے جیسے کئی لوگوں کے لیے حیران کن مگر رزلٹ کن بھی ہے کیونکہ روزانہ مسیحائی کے لیے آنے والے لوگوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے_
انکا کلینک میرے وزٹ روٹ میں تھا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ ان سے ملاقات کیے بغیر آگے بڑھوں خیر 4 بجے شام ہم ان کے کلینک پر پہنچے مگر پتہ چلا کہ 4:30 بجے تک ان کا ریسٹ ٹائم ہوتا ہے لیکن ہماری خوش قسمتی کہ وہ کلینک پر موجود تھے جیسے کلینک کے اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ ریسٹ ٹائم ہونے کے باوجود دس بارہ مریض کلینک میں موجود تھے بعد میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہمارا معمول ہے کہ جن مریضوں کو چیک اپ کی پرچی دی ہوتی ہے جب تک وہ ختم نہ ہو جائے ریسٹ نہیں کرتے اس لیے آج ریسٹ ٹائم میں بھی بیٹھے ہیں ۔
رسپش پر بیٹھی دو بیٹوں جو ڈاکٹر صاحب کی شاگردہ تھیں انہیں ڈاکٹر صاحب سے ملنے کی غرض بتائی اس نے مجھے ڈاکٹر صاحب کے کمرہ میں پہنچا دیا ڈاکٹر صاحب کے کمرے اس وقت 4 مریض موجود تھے اور دو ڈاکٹر صاحبان بھی سیکھنے کی غرض سے موجود تھے ڈاکٹر صاحب سے سلام دعا ہوئی تعارف ہوا ڈاکٹر صاحب نے بیٹھنے کا کہا اور ہمارے سامنے مریضوں کی کیس ٹیکنگ کرتے رہے اور ہمیں گائیڈ بھی کرتے رہے مزے کی بات یہ تھی کہ ہمارے سامنے جتنے بھی مریض چیک کیے وہ سب کے سب مطمن تھے ۔
مریضوں سے فارغ ہونے پر رجسٹر لایا گیا اس میں اس دن کے مریضوں کی تعداد تین سو سے زیادہ تھی ۔
اس دران ڈاکٹر صاحب نے کئی قیمتی ٹیپس دیں ۔
ڈاکٹر صاحب علم باٹنے کے معاملے میں بہت زیادہ سخی ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ہر ہومیوپیتھ کو تمام گر بتا دیے جائیں ۔
ڈاکٹر صاحب کی ایک دن میں اتنے زیادہ تعداد میں مریض چیک کرنے اور چہرہ دیکھ کر دوا تجویز کرنے پر تنقید کرنے والوں میں بھی شامل تھا بہرحال ان کے فن کا میں نے خود مظاہرہ کیا ہے اس راز کے پچھے یقیناً ان کی عمر بھر کی ریاضت ہوگی بہرحال وہ ہومیوپیتھی کے اس راز کو جان کر اس کا عملی مظاہرہ بھی کر رہے اور رزلٹ بھی لے رہے ہیں ۔
ڈاکٹر صاحب بہت ملنسار اور مہمان نواز شخصیت ہیں مگر ان کی اپنے منہ اپنی تعریفیں کرنا اور کلاسیکل ہومیوپیتھ پر تنقید کرنا مجھے اچھا نہیں لگا (معذرت کے ساتھ) خیر یہ خامی مجھ میں بھی ہے اور اس خامی کا سدھار ہونا چاہیے ۔
ڈاکٹر صاحب کا اصرار تھا کہ کھانا کھا کر جائیں مگر ہمیں جلدی تھی پھر بھی انہوں نے زمزم زمزم اور کھجوروں سے تواضع کی اور ہم نے انہیں حج کی سعادت حاصل کرنے پر مبارکباد دی
ڈاکٹر صاحب نے ہومیوپیتھ کے لیے خصوصی پروٹوکول رکھا ہوا ہے ۔
ڈاکٹر صاحب کو ہومیوپیتھی کی ترقی و ترویج کے لیے فکر مند پایا اور ان کی خواہش ہے ہر ہومیوپیتھ ہومیوپیتھی کی ترقی و ترویج میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں اور ان کی بات سے 100 ٪ تفاق کرتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ آج سب ہومیوپیتھ کو جو عزت، شہرت اور دولت ملی ہوئی ہے وہ سب ہومیوپیتھی کی وجہ سے ہے اور ہم ہومیوپیتھی کے مقروض ہیں اور اس قرض کو اتارنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم سب ہومیوپیتھی کی ترقی و ترویج کو اپنا نصب العین بنا لیں ۔
ڈاکٹر صاحب کی جو سنہرے حروف میں لکھنے والی بات ہے وہ یہ ہے کہ "جب سے میں نے علم بانٹنا شروع کیا ہے اس دن سے میری پیشنٹ اوریج بھی بڑھی ہے اور رزق میں بھی اضافہ ہوا ہے"۔
اخر میں ڈاکٹر صاحب نے دعوت دی کہ ہومیوپیتھی کی ترقی و ترویج ہمارا ساتھ دیں (اگرچہ کہ یہ کام میں اپنے تئیں پہلے بھی کر رہا ہوں) میں نے نہ صرف اس دعوت کو قبول کیا بلکہ عہد کیا کہ اس کار خیر مجھے آپ ہمشہ مجھے صف اول میں پائیں گے ۔
از قلم ڈاکٹر عارف محمود چغتائی
Comments
Post a Comment